Episode 2..
(آپکی اُلجھنوں کو دور کرتی چلوں کہ ڈینیل ایک غیر مسلم لڑکا ہے اسکے والد غیر مسلم تھے اور والدہ مسلم اسکا دل سکون کے لیے تڑپتا تھا مگر اسکو سکون کہیں نہیں ملتا یہ شراب کا عادی تو نھیں تھا پر کبھی کبھی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے پی لیتا تھا اسکے ماں باپ دوسرے مُلک میں رہتے تھے یہ یہاں ہی رہتا تھا کیونکہ اِسے اپنے ملک سے پیار ہو گیا تھا اور وہ باقی کی پڑھائی بھی یہیں رہ کر کرنا چاہتا تھا اِسی لیے اسکے والد اور والدہ اِسے یہاں چھوڑ گئے تھے وہ بہت امیر باپ کا بیٹا تھا لیکن بگڑا ہوا نا تھا حسین خوبرو سنجیدہ مزاج کا مالک تھا اپنے آپ میں ہی رہنے والا نہیں تھا پر پہلی بار میں اسکو کوئی دیکھ کر یہی کہتا کہ یہ مغرور انسان ہے لیکن اگر کوئی اُس کے دوستوں سے پوچھے تو وہ بتائیں کہ یے اور مغرور ہو ہی نہیں سکتا مگر اب کیا کر سکتے ہیں لوگ وہی دیکھتے ہیں جو انہیں نظر آتا ہے اسکے کالج ٹائم میں دو دوست بنے تھے وہ دونوں ہی مسلم تھے لیکن اُن دونوں نے کبھی اُسے عجیب فیل نہیں کر وایا تھا بہت عزت دی تھی اُسے ہر چیز سے بڑھ کر اُسے رکھا تھا اُس نے بھی اُن دونوں کو ہر چیز سے بڑھ کر رکھا تھا ۔ڈینیل اپنے بڑے سے گھر میں اکیلا رہتا تھا اور یہی تنہائی کبھی اُسے کاٹتی تو کبھی پل بھر کے لیے سکون دیتی وہ نہیں جانتا تھا کہ اُسے کیا چاہیئے وہ کیوں بے سکون ہے۔۔
دوسری طرف عنایا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد پیاری اور معصوم کسی سے لڑتی نہیں تھی یا یو کہیں کہ کوئی تھا ہی نہیں جس سے لڑتی وہ اپنے ماں باپ کی لاڈلی تھی لیکن اُس کے ماں باپ کی ایک دوسرے سے نہیں بنتی تھی وہ لڑتے رہتے تھے۔کیونکہ اُن کی پسند کی شادی نہیں ہوئی تھی بچپن سے وہ اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتا ہوا دیکھتی آ رہی تھی کبھی کبھی وہ خُدا سے پوچھتی تھی کہ وہ کیوں آئی اس دنیا میں یا پھر کیا تُو اِنہیں صحیح نہیں کر سکتا کیا خیر اب یہ تو اللّٰہ کی مرضی وہ کچھ بھی کر سکتا ہے کسے بھی ٹھیک کر سکتا ہے ۔اسُکی یہاں دو دوستیں بنی تھیں ایک اُس کی ماما کی دوست کی بیٹی زویا اور دوسری اسکے سکول ٹائم سے ساتھ تھی سحرش وہ تینوں بہترین دوستیں تھیں وہ دونوں خوش مزاج شخصیت کی مالک تھیں لیکن عنایا صرف انکے ساتھ ہی زیادہ باتیں کرتی ورنہ وہ خاموش ہی رہتی تھی اُس نے ان دونوں کے ملنے کے بعد دوسری کوئی دوستیں نہیں بنائ تھیں یا پھر کوئی ضرورت باقی ہی نہیں رہی تھی کیونکہ وہ بہت اچھی دوستیں بن گئی تھیں کم وقت میں ہی ان دونوں نے بھی اس کے علاوہ کوئی دوسری دوست نہیں بنائی تھی۔وہ ایک دوسرے کے گھر جاتی رہتی ہیں پر عنایا زویا کے گھر بہت کم جاتی تھی کیونکہ وہ اُس کے بھائی کی نظروں سے گھبراتی تھی زویا کے بھائی کا نام حمّاد ہے۔ اُمید ہے اب آپکی اُلجھنیں دور ہو گئی ہوں گی)
وہ واپس جا کر بیٹھی تو اُن دونوں (عنایا اور سحرش) نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اُس کو دیکھ کر پوچھا کہ"کیا ہوا زوئی تم غصے میں کیوں ہو"سحرش نے اپنے ہاتھ کے استین تھوڑے سے اپر کرتے کہا اور نظریں اُس بیچارے معصوم برگر پر تھیں جیسے آج تو تُو گیا۔اُس کے اِس انداز پر وہ غصے میں بھی نہ چاہتے ہوئے مسکرا دی اور اُس کا غصّہ جھاگ کی طرح اُڑ گیا۔ " ہاں بتاؤ زوئی کیا ہوا "عنایا نے اُسے پھر وہ بات یاد دلائی اور وہ دوبارہ غصے میں آ گئی۔"کچھ نہیں یار بس ایک پاگل لڑکا مل گیا تھا عجیب اتنی باتیں اُس کو سنائی ہیں پر وہ تو بہرہ تھا شاید بس گھورے جا رہا تھا کمبخت دوبارہ مل جائے تو سر ہی پھاڑوں گی اب ڈائرکٹ وہ ابھی تک اُسے خیالوں میں اچھی خاصی سنا رہی تھی اُس کے اس انداز پر وہ لوگ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگیں کہ اگر اس نے دیکھ لیا تو کہیں ہماری بھی اچھی خاصی نہ ہو جائے۔"یار تم نے اتنی باتیں سنائ کیوں اُس بیچارے کو تم میں کب سے سحرش کا بھوت آ گیا"عنایا کے کہنے پر وہ دونوں اُس کو گھورنے لگیں۔"عنو میم وہ بیچارہ تو نہیں تھا اُس کی وجہ سے رائتہ گرتے گرتے بچا اور اگر وہ گر جاتا تو میں پکّا اُسکا سر پھاڑ کر ہی آتی" اُس نے رائتے کی پلیٹ کو خد سے لگاتے کہا۔ وہ دونوں جانتی تھیں کہ رائتے کے بنا وہ برگر نہیں کھاتی تھی ۔ "عنو میم میں نہیں لڑتی سب سے وہ تو میرا دل کہتا ہے سحرش پنگے لے پنگے" سحرش نے اپنی صفائی دی اور عنایا تو بس سر نفی میں ہلا کر رہ گئی کہ یہ کبھی نہیں سدھر سکتی۔ پھر وہ لوگ کھانے میں مصروف ہو گئے ۔
کھانے کے بعد سب اپنی اپنی کلاسز میں چلے گئے اور وہاں پڑھنے کے بعد سب اپنے اپنے گھر چلے گئے ۔ وہ اپنے گھر داخل ہوا تو اُس کا استقبال تنہائی نے کیا وہ اپنے خالی گھر کو دیکھ کر گہری سانس لے کر رہ گیا۔" نہ جانے کب سکون ملے گا کب یہ تنہائی ختم ہو گیئ"اُس نے سوچا۔"ڈینیل سر آپ کے لیے کھانا لگا دوں" کسی نے اُس سے کہا تو وہ اپنی سوچوں سے باہر آیا۔"اَنکل آپ کو کتنی بار کہا ہے سر نہ کہا کریں عجیب لگتا ہے آپ بڑے ہیں مجھ سے ڈینیل کہا کریں " اُس نے ناراضگی سے کہا تو وہ اِس کی بات پر مسکرا دیئے"وہ ابھی بھی بچہ ہی تھا نہ جانے کیوں اسکے والدین اِس کو چھوڑ کر چلے گئے تھے پر دیس" انہوں نے سوچا۔"ٹھیک ہے بیٹا اب نہیں بولوں گا آپ فریش ہو کر آ جائیں پھر کھانا کھاتے ہیں"انہوں نے کھانا ٹیبل پر رکھتے کہا۔ ڈینیل اُنہیں دیکھ کر مسکرا دیا یہ کتنا خیال رکھتے تھے اُس کا۔"اوکے" وہ بس اِتنا کہہ کر چلا گیا دس منٹ بعد وہ فریش ہو کر واپس آیا اور اپنی جگہ آ کر بیٹھ گیا۔"یہ اتنی جائیداد کا مالک اتنا امیر انسان لیکن غرور تکبر تو اِسے شاید چھو کر بھی نہیں گزرے میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے بہت پیارا بچہ ہے اللّٰہ نصیب اچھے کرے اللّٰہ اسکو اپنی طرف لے آ گمراہ نہ رکھ اِسے " انہوں نے سوچا اور پھر دل سے اُس کے لئے دعا کی۔ آنکھوں میں نمی چہرے پر مسکراہٹ لئے وہ اُس لڑکے کو دیکھ رہے تھے جو موبائل میں مصروف تھا۔"بیٹا موبائل رکھ دو پہلے کھانا کھا لو " انہوں نے ڈینیل کو پکارتے کہا۔"ا اہ ج جی کھا رہا ہوں" وہ اُن کی ڈائریکٹ آواز پر ڈر کر سیدھا ہوا اور موبائل سائڈ پر رکھ دیا۔اَنکل(کھانا پکانے والے کوک)نے پہلے اُس کی پلیٹ میں کھانا نکالا اور پھر اپنی پلیٹ میں نکال کر واپس بیٹھ گئے۔ وہ ابھی کھانا شروع کرنے والا تھا کہ انہیں دیکھ کر رُک گیا جو شاید کچھ پڑھ رہے تھے۔ وہ کھانے کی دعا کر کے اُسے دیکھنے لگے جس نے ابھی تک کھانا شروع نہیں کیا تھا اور انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔"کیا ہوا بیٹا کھائو کھانا"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔"آپ روز کچھ پڑھ کر کھانا کھاتے ہیں میں آپ کو روز دیکھتا ہوں آج آپ مجھے بھی بتائیں کیا پڑھتے ہیں آپ" ڈینیل نے منتظر نظروں سے انہیں دیکھا۔ "بیٹا میں دعا پڑھتا ہوں کھانے کی اِس سے کھانے میں برکت ہوتی ہے اور اللّٰہ پاک کھانے میں ہمارے لئے شفاء رکھتاہے" انہوں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ نہایت غور سے اُنہیں سن رہا تھا۔ پھر انہوں نے کھانا شروع کیا اور کھانا کھا کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور وہ برتن سمیٹنے لگے۔
"اسلام وعلیکم امی میں گھر آ گئ"اُس اپنا بیگ صوفے پر رکھا اور گرنے کے انداز میں صوفے پر ڈھے گئی۔"وعلیکم السلام۔مجھے دِکھ رہا ہے تم آ گئی ہو اب جلدی فریش ہو آ ئو کھانا کھاتے ہیں پھر" انہوں نے کچن سے ہی اُس کو کہا ۔ "اچھا امی جا رہی ہوں "وہ جانے کے لئے مُڑی پر پھر کچھ یاد آ نے پر اپنا رُکھ کچن کی جانب کیا"امی آج مُجھے سحرش کے گھر کے جانا ہے وہاں زویا بھی آئے گی" اُس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے کہا۔"اچھا ٹھیک ہے باپ کو بتا دو اپنے اور زویا کو کہو تمہیں اپنے ساتھ لے جائے اکیلی کیسے جائو گی" اُس کی امی نے برتن نکالتے کہا۔ " اوکے امی میں بابا کو بتا دیتی ہوں" اُس نے بوتل واپس رکھتے کہا اور اب کی بار اُس کا لہجہ دھیما تھا اور یہ بات اُس کی امی نے محسوس کی تھی"عنو بیٹا تم کیوں فکر کرتی ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ایک دن" اُنہوں نے اُسے تسلی دیتے کہا جبکہ وہ جانتی تھیں کہ کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا یا پھر وہ کسی معجزے کے انتظار میں تھیں اور معجزات بھی تو اُنہیں کے لیے ہوتے ہیں جو اللّٰہ پر یقین رکھتے ہیں۔ "امی آج تک تو کچھ صحیح نہیں ہوا بچپن سے آپ یہی کہتی آ رہی ہیں" اُس نے رخ دوسری جانب کر کے کہا۔"امی کیا ہمارے لئے معجزے نہیں ہوں گے" اُس نے پھر سے کہا ۔" کیوں نہیں ہوں گے ضرور ہوں گے اُس رب کی ذات پر یقین رکھو اور ہمیں اتنے دُکھ کہاں ہیں بیٹا اُن سے پوچھو جن کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں کھانے کے لیے کھانا نہیں پر وہ پھر بھی اُس رب کا شکر ادا کرتے ہیں اور رب اپنے شکر گزار بندوں سے خوش ہوتا ہے آئندہ اپنے ربّ سے شکوہ نہ کرنا وہ رحیم ہے سب کی سنتا ہے"انہوں نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا وہ اُنہیں غور سے سن رہی تھی کتنا یقین تھا نہ اُنہیں اپنے ربّ پر وہ شکوہ نہیں کرتیں تھیں تو پھر وہ کون ہوتی ہے اپنے ربّ سے شکوہ کرنے والی"جی امی"اُس نے بس اتنا کہا " اب جائو جلدی فریش ہو کر آئو کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا اور پھر تمہیں جانا بھی تو ہے نہ"انہوں نے عنایا کو یاد کراتے ہوئے کہا ۔" ارے ہاں امی میں تو بھول گئی تھی میں بس یوں گئی اور یوں آئی" اُس نے ہاتھ سے چٹکی بجاتے کہا۔ اُس کی سر نفی میں ہلانے لگیں کہ پتا نہیں اِسکی یہ باتیں بھولنے کی عادت کب جائے گی کب بڑی ہو گی یہ اور کھانا ٹیبل پر لگانے لگیں۔
وہ کمرے میں آکر بیٹھا کہ کچھ دیر بعد اِسے کسی کی کال آنے لگی وہ بیڈ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔" ھیلو جگر کیسا ہے" دوسری طرف سے کسی نے کہا وہ اُس کی آواز سے ہی پہچان گیا تھا کہ کون ہے دوسری طرف آخر کیسے نہ پہچانتا وہ اُس کا دوست ہے ۔"میں ٹھیک تو کیسا ہے" اُس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ "میں تو پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گیا ہوں" اُس نے ہنستے ہوئے کہا " اچھا یہ بتا مام ڈیڈ سے بات ہوئی تیری" اُس نے مزاخ کو سائڈ پر رکھتے سنجیدگی سے کہا اِس کے اِس سوال پر اُس کی مسکراہٹ پل سے غائب ہوئی "نہیں میں نے کال نہیں کی ابھی تک اُنہیں" اُس نے بھی اٹھ کر سنجیدگی سے جواب دیا۔ "ہمم۔۔۔ تو کب کرے گا بات" اشعر نے سوال کیا۔" " پتا نہیں یار تو اِس بات کو چھوڑ یہ بتا بھابھی کا کچھ پتا چلا اور یہ علی کہاں ہے" اُس نے بات رفع دفع کرتے کہا پر وہ بھی اشعر تھا اپنے نام کا ایک وہ سمجھ گیا تھا اِس کی حرکت پر وہ اسکو فورس نہیں کرنا چاہتا تھا بس اِسی لیے ٹھنڈی آہ بھر کر اسکے سوالات کے جواب دئیے۔" نہیں یا مِس زوئی کا تو کچھ پتا نہیں کیا۔ یہ کام تو اب علی کو دینا پڑے گا وہی میری بات آگے بڑھا سکتا ہے " اُس نے اپنا دُکھ بیان کیا تو ڈینیل مسکرا دیا۔" ہاں یہ تو تُو نے سو فیصد صحیح کہا ویسے علی میں اتنا ٹیلنٹ آیا کہاں سے سب کو اپنا دیوانہ بنا لیتا ہے باتوں سے " اُس نے واپس لیٹتے کہا ۔ "بس بس زیادہ نہ بول تُو یہ ٹیلنٹ تو تیرے پاس بھی ہے سب کو اپنی باتوں کا دیوانہ بنا لیتا ہے اور کچھ تو تجھے دیکھ کر ہی ہو جاتے ہیں مغرور شہزادے"اشعر نے منہ بناتے کہا اور پھر مسکرا دیا وہ بھی مسکرا دیا اور کہا"اِسے میں تعریف سمجھوں یا تنقید" اُس نے مسکراتے ہوئے پوچھا "زیادہ خوش نہ ہو تعریف نہیں ہے یہ" اشعر نے مسکراہٹ چھپاتے کہا جیسے وہ اُس کے سامنے ہو اور مسکرا کے اُسے ہی دیکھ رہا ہو ۔" مسکراہٹ مت چھپا میری محبوبہ میں وہاں نہیں ہوں ویسے بھی" ڈینیل نے ہنستے ہوئے کہا تو اُس نے فون کو کان سے ہٹا کر گھورا جیسے وہ اُس کو ہی گھور رہا ہو۔" گھور مت ہنس لے پگلے" اُس نے پھر سے ہنستے کہا اور وہاں اشعر حیران تھا وہ شخص کتنا جان چُکا تھا اُس کو کیوں نہ جانتا آخر کو وہ دوست تھے یہ دوستی کا رشتہ واقع کتنا حسین ہوتا ہے اگر دوستی دل سے ہو تو دنیا بھی جنت لگتی ہے۔
ایک دوست ہی تو ہوتا ہے جسکے مخلص ہونے سے
دنیا جنت لگتی ہے?
"ہنس ہی رہا ہوں میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں میں" اُس نے منہ بناتے ہنستے ہوئے کہا۔" ایک کام ہے جو تو کر سکتا ہے وہیں پر" ڈینیل نے سنجیدگی سے کہا ۔ "کیا کام" اشعر نے بھی سنجیدگی سے پوچھا ۔ "ناچ لے میری انار کلی " اُس نے ہنستے ہوئے کہا ۔ " اِیسی ہی کوئی بات کی امید تھی تجھ سے یہ آج علی کا اثر تجھ میں کیسے آیا " اُس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔"اب جگری دوست ہیں اثر تو آئے گا ہی"ڈینیل نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔"اچھا ہے کہاں وہ جنگلی ذرا اُس کو کانفرنس کال کر"پھر سے ڈینیل نے کہا۔" کچھ ٹھوس رہا ہوگا یا پھر سو رہا ہوگا اور کام کیا ہے اِس کو بس اِس سے باتیں کروالو گدھا ہے ایک نمبر کا"ابھی وہ اور بہت کچھ کہتا کہ کسی کی آواز آئی ۔"اسلام وعلیکم" وعلیکم السلام اور تجھے پتا ہے" ابھی وہ بے دیھانی میں اور برائی کرتا اُس کی کہ فوراً اُسے خیال آیا کہ یہ آواز تو جانی پہچانی ہے۔"ایک منٹ ڈینی یہ میں نے ابھی علی کی آواز سنی یا میں بہرہ ہو گیا ہوں" اُس نے دھیمی آواز میں کہا۔ " ہاں جی میں ہی ہوں اب بول کیا بول رہا تھا میرے بارے میں تو" علی نے دانت چباتے ہوئے کہا۔ "ارے علی میرے بھائی میری جان تُو۔۔تُو یہاں کیسے میرا مطلب ہے کہ کیسا ہے تُو میرے بھائی کھانا کھایا تُو نے" اب اشعر کی صحیح والی بولتی بند ہوئی تھی اور ڈر کے مارے اُس کی خوشامد کرنے لگا جبکہ ڈینیل اور علی اپنے قہقہوں کو بمشکل روکے ہوئے تھے کہ اچانک یہ ھیرو سے زیرو کیسے بن گیا۔ " ہاں میں تو ٹھیک ہوں اور کھانا بھی کھا چکا ہوں پر تُو شاید کچھ کہہ رہا تھا بول اب میں سُن رہا ہوں" علی نے اپنی ہنسی کو روکتے کہا۔ " نہیں یار میں۔۔۔میں کیا کہوں گا میں تو کچھ نہیں کہہ رہا تھا" اشعر نے فوراً بات کو نیا رُخ دیا ۔" اوہ اچھا پھر میں نے کچھ غلط سُن لیا ہو گا" علی نے بات کو سمجھنے کے اسٹائل میں کہا۔ " ہاں بھائی۔۔۔ہاں تُو نے کچھ اور سُن لیا ہو گا میں تو بس بول رہا تھا کہ علی پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے اب تک کال پر نہیں آیا پر تُو آیا کیسے بیچ میں" اُس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ میں نے بُلایا اِسکو جب تُو اِس کی اتنی تعریفیں کر رہا تھا" ڈینیل نے خوش دلی سے کہا۔"ابّےےے!!!میرا مطلب ہے اچھا صحیح کیا تُو نے" اشعر نے دانت چباتے کہا اور دل میں اُسے سو گالیوں سے نوازا۔"اچھا تم لوگ باتیں کرو میں آتا ہوں کچھ دیر میں " علی کا ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا اِسی لیے بس وہ ابھی کال کٹ کر کے ہنسنا چاہتا تھا۔"ہاں دیہان سے جانا میرے بھائی اللّٰہ حافظ"اشعر نے فوراً کہا تاکہ علی جائے تو وہ ڈینیل کو اچھی خاصی سنائے کیونکہ اس کی وجہ سے وہ مفت میں مارا جاتا علی کے ہاتھوں۔ علی اور ڈینیل نے بھی ایک دوسرے کو اللّٰہ حافظ کیا۔ "ابّے ڈیش ڈیش ڈیش ڈیش ڈیش ایک تو اچھی والی گالیاں بھی نہیں آتی مجھے ساری گالیاں تُو ہے ۔تُو مجھے بتا نہیں سکتا تھا کیا کہ تُو نے اُس چنڈھال کو بھی اِس کال میں شامل کیا ہے ابھی میں مفت میں مارا جاتا گدھے"اشعر کو لگا وہ چلا گیا ہے پھر اُس نے نون اِسٹوپ بولنا شروع کر دیا۔"آہم آہم میں یہی ہوں کیا بول رہا تھا تُو میں چنڈہال میں گدھا بیٹا تُو ایک بار مل مجھے تجھے تو میں سیدھا کرتا ہوں کمینے" علی نے دانت چباتے کہا جبکہ اب ڈینیل کی بس ہوئی تھی اور وہ ہنس دیا تھا۔ وہ بہت ہنس رہا تھا پاگلوں کی طرح وہ دونوں بھی بھی اپنی لڑائی بھول کر اُس کی ہنسی میں گُم ہو گئے تھے۔"واقع اس کی ہنسی کتنی پیاری ہے یہ اگر انسان نہ ہوتا تو فرشتہ ہوتا" اشعر اور علی نے دل میں سوچا۔ اُن دونوں کو خاموش دیکھ کر وہ بھی اب ہنسنا بند کر چکا تھا ۔"کیا ہوا تم لوگ خاموش کیوں ہو گئے ہو کر گئے کیا بھونکو بھی کچھ" ڈینیل نے اپنے موبائل فون کو کان سے ہٹا کر اِیسے بولا جیسے وہ دونوں سامنے ہوں اِس کے ۔