Episode 3..
"ہاں ہاں سن رہے ہیں مرے نھیں ابھی تک" علی نے جواب دیا۔ " تم جیسے لوگ جلدی مرتے بھی نہیں" اشعر نے مزاحیہ انداز میں کہتے علی کو آگ ہی تو لگا دی تھی۔ دیکھ تُو نہ چپ رہ ورنہ میرا تو پتا نہیں پر تو میرے ہاتھ سے ضرور مرے گا اور اگلے دن ٹی وی چینل پر خبر آئے گی کہ ایک سی ای او کا بیٹا اپنے دوست کے ہاتھوں مارا گیا اور وجہ صرف اتنی تھی کہ اُس نے عزت نہیں کی تھی اپنے دوست کی" علی نے بھی ہنستے ہوئے اُسے بھی آگ ہی تو لگائی تھی اور اپنے ارادوں میں کامیاب بھی ہوا تھا کیونکہ اشعر کو آگ لگ چکی تھی۔"اگر اس بات پر تُو مجھے مارنا چاہتا ہے کہ میں تیری عزت نہیں کرتا تو بھلے مار دے کیونکہ تیری عزت تو میں کبھی نہیں کروں گا بس ایک ہی دن بڑا ہے تو زیادہ میرا ابّا نا بن"اشعر نے جل کر کہا۔ " یار بس کرو تم لوگ ہمیشہ لڑتے رہنا اور یہ کیا مرنے مارنے کی باتیں کر رہے ہو بس کرو میں نے سنا ہے کبھی کبھار جو ہم کہہ دیتے ہیں وہ سچ بھی ہو جاتا ہے تو ایسی باتیں نہ کرو" ڈینیل نے انہیں خاموش کرواتے ہوئے پریشانی سے کہا۔ " یار ڈینی کیا ہو گیا ہے کچھ نہیں ہوتا مزاخ کر رہے ہیں ہم۔کیوں علی بتا اِسکو " اشعر نے ڈینیل کی پریشانی کو دور کرتے کہا۔ " ہاں ڈینی اشعر بلکل صحیح کہہ رہا ہے" علی نے عام سے لہجے میں کہا۔" ہممم اچھا چل میں کال رکھتا ہوں تھک گیا ہوں تھوڑا آرام کر لوں اور تم لوگ بھی تھوڑا آرام کر لو کل ملتے ہیں پھر صبح میں"ڈینیل نے بند ہوتی آنکھوں کو بمشکل کھولے کہا۔ " چل ٹھیک ہے خدا حافظ" علی اور اشعر نے کہتے کال بند کر دی۔ اور ڈینیل وہی بیڈ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کر کے سو گیا۔وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کبھی کبھی مزاخ میں کہی گئی بات بھی سچ ہو جاتی ہے۔ نہ جانے اِنکی قسمت میں کیا لکھا تھا آنے والا وقت کیا لے کر آئے گا وہ اِس سب سے بے خبر تھے۔
"ھیلو زویا۔ یار ایسا کرو تم مجھے بھی لیتی چلو اپنے ساتھ میں اکیلی کیسے جائوں گی" اُس نے کمرے میں آتے فوراً اپنی دوست کو کال کی۔ " ارے ارے آرام سے کیا ہو گیا ہے ٹھیک ہے میں آتی ہوںتم گیٹ پر ہی رہنا اندر نہیں آؤں گی میں کیونکہ بھائی کو جانا بھی ہے وہ ہمیں چھوڑ کر پھر اپنے دوستوں کے پاس جائیں گے" زویا نے اپنے لئے کپڑے نکالتے کہا۔ " چلو ٹھیک ہے میں بس تیار ہو جاتی ہوں جلدی " اُس نے خوش ہوتے کہا پر اچانک پھر کچھ یاد آنے پر کہنے لگی " یار مجھے میک اپ نہیں آتا کیا کروں گی" اُس نے ناخن دانتوں سے کاٹتے کہا۔ " پہلے تو تم یہ ناخن کھانا بند کرو اور کوئی ضرورت بھی نہیں ہے میک اپ کرنے کی ایسے ہی اچھی لگتی ہو بلا وجہ میک اپ سے چہرہ نہ خراب کرو" اُس نے اسے ٹوکتے کہا ۔ " اب حیران نہ ہو میں جانتی ہوں جب تمہیں کوئی بات پریشان کرتی ہے تو تم اپنے ناخن کھانا شروع کر دیتی ہو اور مجھے تمہاری یہی عادت بہت بری لگتی ہے " زویا نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا ۔ " اچھا بابا نہیں کرتی اب فون بند کرو تا کہ میں تیار ہوں ورنہ دیر ہو جائے گی اور وہاں سحرو ہمارا استقبال چپلوں سے کرے گی" عنایا نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دی ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر تیار ہونے لگی ۔
تیار ہو کر وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھنے لگی وہ بلیک رنگ کے کڑھائی کئے ہوئے سوٹ میں بہت زیادہ پیاری لگ رہی تھی میک اپ سے پاک چہرہ وہ سادگی میں بھی قیامت ڈھا رہی تھی اُس نے ایک آخری بار خد کو آئینے میں دیکھا اور شال پہن کر نیچے آگئی۔ دس منٹ بعد اُس کو گاڑی کی آواز آئی وہ جانتی تھی یہ کس کی گاڑی کی آواز ہے۔" امّی میں جا رہی ہوں زویا آگئی ہے" اُس نے جلدی اُٹھتے شال درست کی اور اپنی امی کو آواز دیتے کہا۔ " ٹھیک ہے جائو" اُس کی امی نے کمرے سے نکلتے کہا۔ وہ باہر نکلی تو وہ دونو اُسے ہی دیکھ رہے تھے وہ واقعی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ " واؤ اوسم یار تم تو بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ" زویا نے اُسے دیکھتے دل سے اُس کی تعریف کی۔"واقعی"کسی نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا ۔ "شکریہ۔ تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ" عنایا نے اُس کا شکریہ ادا کرتے اور آخر میں اُس کی بھی تعریف کر دی ۔"وہ تو میں ہمیشہ ہی لگتی ہوں" زویا نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں تھی وہ گھر زیادہ دور نہیں تھا وہ 5 منٹ میں ہی اپنی منزل تک پہنچ چکے تھے گاڑی سے نکلتے ہی عنایا نے سکون کا سانس لیا کیونکہ وہ کب سے حماد کی نظروں کے حسار میں تھی۔ وہ بار بار گاڑی میں لگے آئینے سے اُسے دیکھ رہا تھا ۔ یہ نہیں تھا کہ وہ اچھا نہیں وہ بہت ہینڈسم تھا اُسے لگتا تھا وہ اِس سے محبت کرتا ہے پر کبھی اِس نے حماد کی آنکھوں میں محبت نہیں دیکھی تھی وہ شاید کچھ اور ہی تھا۔ وہ دونوں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں تو سحرش کو وہیں کھڑا پایا۔ اُن دونوں نے اِیک دوسرے کو دیکھا پھر اپنی کلائی میں پہنی گھڑی کو کہ وہ تو وقت پر پہنچے ہیں پھر سحرش کا اِنکے لئے یوں کھڑے ہونا اِنکی سمجھ سے تو بالاتر تھا۔" ہاں ہاں تم لوگ وقت پر ہی پہنچے ہو مجھے لگا تھا آج بھی وقت پر نہیں پہنچو گے" سحرش نے اُن سے گلے ملتے کہا۔انہوں نے سکون کا سانس لیا کہ آج بچت ہوگئی اِن کی ۔ " یار سحرو ہمیشہ یہ لیٹ آتی ہے میرے گھر مجھے لینے" عنایا نے اپنا دامن بچاتے سارا ملبہ اُس بیچاری زویا پر ڈال دیا اب سحرش کا رُخ زویا کی طرف تھا وہ اُسے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کہ بولو بیٹا بولو اپنی صفائی میں کیا کہو گی۔ " یار میں کہاں لیٹ کرتی ہوں ہمیشہ حماد بھائی لیٹ کراتے ہیں " اُس نے اپنی صفائی دی" ہم اچھا آجائو اندر معاف کیا میں نے تم دونوں کو کیا یاد کرو گے مجھے آجائو" سحرش نے احسان کرنے والے انداز میں کہا۔" شکریہ ملکہ سحرش اُن دونوں نے ایک ساتھ اُسے عزت دیتے کہا پھر تینوں ہنستے ہوئے اندر سارا آنٹی (سحرش کی امی) سے مل کر سحرش کے کمرے میں داخل ہوئیں ۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی دونوں بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئیں اور سحرش انہیں دیکھ کر رہ گئی کہ کیا تیزی ِدکھائ ہے اُففف۔ اچھا میں نے ایک ڈرائونی مووی سلیکٹ کی ہے کیا کہتے ہو دیکھیں ۔ " ہاں ہاں کیوں نہیں دیکھ کر ہی جائیں گے ہم" عنایا نے جلدی سے کہا۔" ٹھیک ہے ڈن "سحرش نے کہتے اپنا رُخ زویا کی جانب کیا جو موبائل میں پتا نہیں کیا کر رہی تھی۔" یہ تم موبائل میں کیا کرتی رہتی ہو ایسی کون سی مخلوق رہتی ہے اِس میں " عنایا نے تڑکھ کر کہا ۔ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔ اور تم لوگ کچھ مو وی کا کہہ رہے تھے لگائو پھر " زویا نے اپنا موبائل سائڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔" یار داد دینی پڑے گی تمہارے ہاتھی جیسے کانوں کو دیہان سارا تمہارا موبائل میں تھا اور کان ہماری طرف واج کیا ٹیلنٹ ہے" سحرش نے اُس کے لئے تالیاں بجاتے ہوئے کہا۔" شکریہ"زویا نے دل پر ہاتھ رکھتے داد وصول کی۔ اُن لوگوں نے مو وی دیکھنا شروع کی اور ساتھ میں سحرش کچھ کھانے کا سامان لے آئی تھی وہ ڈرائونی مووی اِیسے دیکھ رہے تھے جیسے فنی مو وی ہو۔ مو وی میں ہیرو اور ہیروئن ہاتھ پکڑ کر بھاگ رہے تھے کہ سکرین پر چڑیل آ گئی جس وہ سخت بد مزہ ہوئیں۔"کیا یار اِس چڑیل کی بچی کو بھی آبھی آنا تھا کیا"زویا نے بد مزہ ہوتے کہا۔ "چڑیل کی بچی نہیں آئی چڑیل خد آئی ہے " عنایا نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے اُسے درست کرتے ہوئے کہا ۔ وہ دونوں اُسے دیکھنے لگی جو اب آرام سے بسکٹ کھا رہی تھی پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دی۔ وہ بہت ڈرائونی مووی تھی لیکن اُنہیں ڈر نہیں لگ رہا تھا۔" یار یہ تو بلکل بھی ڈرائونی نھیں ہے تم کہہ رہی تھی ڈرائونی ہے" زویا نے بیزار سا منہ بناتے ہوئے کہا۔" یار مجھے لگا ڈرائونی ہوگی اچھا اِسکو چھوڑو آئو چھت پر چلتے ہیں وہاں بیٹھ کر چائے پئیں گے کیا کہتے ہو " سحرش نے اُنکا موڈ ٹھیک کرتے رائے لی ۔"ہاں یہ صحیح ہے چلو"عنایا نے فوراً کھڑے ہوتے کہا وہ دونوں اِس کی تیزی پر مسکرا دیں۔ وہ تینوں چھت پر بیٹھی چائے پی رہی تھی کہ نیچے سے سارا بیگم (سحرش کی امی) نے آواز دی" بچیوں نیچے آجائو بھائی لینے آئے ہیں آپ کے"۔"ابھی"زویا نے وقت دیکھتے کہا۔"یار ابھی تو آدھا گھنٹا ہے تمہارا بھائی جلدی آگیا ہے" عنایا نے خفگی سے منہ بناتے ہوئے کہا ۔ "جی امّی آ رہے ہیں"سحرش نے اپنی امی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ۔ "چلو پھر نیچے بلاوا جو آ گیا تم دونوں کا" سحرش نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔" یار ناراض تو مت ہو اگلی بار سے ایسا نہیں ہوگا اور پتا نہیں کیوں بھائی جلدی آ گئے ہیں" زویا نے شال پہنتے پریشانی سے کہا ۔ " ہاں چلو نیچے اللّٰہ خیر کرے" عنایا نے بھی شال اوڑھتے کہا۔ وہ تینوں نیچے آئی جب حماد تیار سا کھڑا موبائل میں مگن تھا ایک پل کو تو عنایا اُسے دیکھتی رہ گئی وہ واقعی ہینڈسم تھا حماد کو خد پر کسی کی نظریں محسوس ہوئی تو نظر اُٹھا کر دیکھا وہ تینوں آ رہی تھی نیچے اور عنایا کی نظریں خد پر پاتے اُسے دل میں خوشی ہوئی جب اِن دونوں کی نظریں ملیں تو فوراً عنایا نے نظریں پھیر لیں اِسکا یہ عمل حماد کو بلکل پسند نہ آیا تھا اُس کو غصّہ آ رہا تھا عنایا پر وہ چاہتا تھا عنایا صرف اُسے دیکھے۔ " کیا ہوا بھائی آپ جلدی آ گئے ابھی تو ٹائم تھا بہت " زویا نے حماد کے پاس جاتے ہوئے کہا۔"ہاں وہ اصل میں مجھے دوستوں کے ساتھ باہر جانا تھا اور واپسی میں دیر ہو جاتی اِسی لیے تم لوگوں کو گھر چھوڑ کر پھر جائوں گا" حماد نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔ " اچھا تو آپ اب جا رہے ہیں ٹھیک ہے پھر چلیں اللّٰہ حافظ سحرو کل یونی میں ملتے ہیں پھر" زویا نے سحرش سے ملتے ہوئے کہا ۔ "ٹھیک ہے اللّٰہ حافظ " سحرش نے اُن دونوں سے گلے ملتے ہوئے کہا۔ وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے زویا اپنے موبائل میں مصروف تھی اور حماد عنایا کو دیکھے جا رہا تھا گاڑی کے شیشے میں سے اور وہ بیچاری دعا کر رہی تھی کہ سفر جلدی ختم ہو۔پہلے زویا کا گھر آیا تو اُس نے گاڑی روکتے ہوئے کہا کہ " تم چلی جاؤ میں اِسے اِس کے گھر چھوڑ کر وہیں سے چلا جائوں گا " ۔" ٹھیک ہے بھائی اللّٰہ حافظ گڑیا گھر پہنچ کر میسیج کر دینا" اُس نے اپنے بھائی سے پھر عنایا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ عنایا نے بس ہاں میں سر ہلایا ۔ حماد نے گاڑی اِسٹارٹ کی ۔" کیسی ہو" حماد نے گاڑی میں موجود خاموشی کو ختم کرتے ہوئے عنایا سے کہا ۔ " می۔۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں بھائی" عنایا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کہے وہ سوال اتنا مشکل تو نہیں تھا پر اِس وقت اُسے جواب دینے میں مشکل ہو رہی تھی پھر کچھ سوچ کر اُس نے اُسے بھائی ہی بول دیا۔ وہ جو پہلے مسکرا رہا تھا اب غصے سے اُسے دیکھ رہا تھا" یہ لڑکی سمجھتی کیوں نہیں ہے" اُس نے سوچتے ہوئے کہا وہ اُسے روک بھی سکتا تھا یہ کہنے سے کہ اگر اس نے زویا کو بتا دیا تو وہ کہیں کچھ اُلٹا ہی نہ سمجھ لےاور گاڑی جھٹکے سے اُس کے گھر روکتے ہوئے کہا "اُترو گھر آ گیا ہے" ۔وہ فوراً گاڑی سے اُتری اور بھاگنے کے انداز میں اندر چلی گئی۔وہ اسکی تیزی پر مسکرا دیا جو کچھ سیکنڈ پہلے اُس پر غصّہ تھا وہ جھاگ کی طرح اُڑ گیا تھا۔" ڈرپوک بلی" وہ مسکراتے ہوئے اُسے نیا نام دے چکا تھا اگر وہ جان لیتا کہ یہ ڈرائونی موویز دیکھ کر بھی نہیں ڈرتی تو کبھی اِسکو ڈرپوک بلی نہ کہتا۔وہ گاڑی لے کر چلا گیا ۔ "اسلام وعلیکم امی "اُس نے گھر میں داخل ہوتے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔"وعلیکم السلام اتنی جلدی آ گئ ابھی تو ٹائم تھا "اُس کی امی نے اُسے پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہا ۔" جی امّی وہ حماد بھائی کو جانا تھا کہیں پر تو وہ لینے آگئے جلدی"اُس نے پانی پیتے ہوئے کہا ۔ "اچھا ریسٹ کر لو پھر رات کے کھانے میں میری مدد کر دینا"اُس کی امی نے کمرے میں جاتے ہوئے کہا ۔ "اوووکےےےے" عنایا نے وہیں لیٹتے ہوئے کہا پر کچھ یاد آنے پر موبائل نکال کر کسی کو کچھ میسیج کیا "آ گئی ہوں گھر" ۔"اوکے سوئیٹ ہارٹ" کسی نے آنکھ مارنے والا ایموجی سینڈ کرتے ہوئے میسیج کا جواب دیا ۔ " ہا ہا ہا ہا زویا تم بھی نہ " عنایا نے ہنسنے والے ایموجی سینڈ کرتے ہوئے میسیج کیا۔ اور موبائل واپس رکھ کر کمرے کی طرف رخ کیا۔ فریش ہو کر کچن میں امی کی مدد کرنے آ گئی۔ "مجھے سمجھ نہیں آتی جب اتنے پیسے ہیں ہمارے پاس کہ ایک کُک اور میڈ رکھ سکتے ہیں تو امی رکھتی کیوں نہیں شاید اِسی لیے کہ یہ دونوں کام کرنے والی میڈ گھر میں جو موجود ہے یعنی میں"خد سے سوال کرتے خد ہی جواب دیا ۔ "کہاں کھو گئی جلدی جلدی کرو بابا آجائیں گے پھر تمہارے" انہوں نے بھوت بنی کھڑی عنایا کو پُکارتے ہوئے کہا ۔"ج۔۔جی امی یہیں ہوں" اُس نے ٹماٹروں کی ٹوکری اُٹھاتے ہوئے کہا ۔اب وہ اُنہیں کیا بتاتی کہ وہ گھر کے کام کرنے کو نوکرانی کا کام کہ رہی تھی ۔"امی مجھ سے نہیں ہوتا یہ کچن کا کام"اُس نے چھری واپس پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا ۔ "بیٹا تو کون کرے گا پھر اور شادی کے بعد تمہارے ابّا کوئی نوکرانی نہیں بھیجیں گے ساتھ میں اور چلو مان لو تمہارے شوہر کے گھر نوکرانی ہوئی پہلے سے لیکن پھر بھی اپنے شوہر کے کام تو تم خد کرو گی یا وہ بھی نوکرانیاں کریں گی شوہر تمہارا ہوگا یا اُنکا" انہوں نے ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا۔وہ اِن کی آخری بات پر ہنس دی۔" کیسی بات کر رہی ہیں شوہر تو میرا ہی ہوگا وہ اور اُس کے کام بھی میں ہی کروں گی" اُس نے دوپٹے کے پلو کے ساتھ کھیلتے ہوئے کہا اور آخر میں چہرے پر ہاتھ رکھ کر ہنس دی ۔"تو میری جھلّی دھی کام کرنا سیکھو"وہ اس کی معصوم سی حرکتوں پر مسکرا دیں اللّٰہ نصیب اچھے کرے اُس کو دل سے دعا دیتے اپنے کام میں مصروف ہو گئیں ۔وہ بھی اب خوشی سے ٹماٹر کاٹ رہی تھی ۔
"اسلام وعلیکم، عنو بیٹے یہ لو بکس جو آپ نے منگوائی تھی"کسی نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔"وعلیکم السلام بابا ۔ او واؤ آپ لے آئے تھینک یو سو مچ بابا"عنایا نے خوشی سے بکس لیتے ہوئے کہا۔"پر بیٹا ایک بُک تو پبلش نہیں ہوئی ابھی وہ کیا نام تھا اُس کا" عنایا کے ابّو نے سوچتے ہوئے کہا ۔"منِ رقصم" عنایا نے یاد کرایا۔" ہاں وہی وہ ابھی تک نہیں آئی جب آئے گی تو لا دوں گا لیکن بیٹا پڑھائی پر بھی توجہ دینا ورنہ اگلی بار نہیں لائوں گا ٹھیک ہے" عنایا کے ابو نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔ " جی بابا" اُس نے سر ہاں میں ہلایا ۔ " ماں کہاں ہیں تمہاری" انہوں نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے کہا ۔ " وہ کچن میں ہیں بابا آپ کے لیے پانی لائوں" عنایا نے انہیں بتاتے ہوئے آخر میں پوچھا ۔" ہاں لے ائو " انہوں نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا۔ وہ پانی لے کر آئی اُس کے بعد وہ فریش ہونے چلے گئے ۔ عنایا اور اُس کی امی نے ٹیبل پر کھانا لگایا اور سب کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ عنایا کی امی برتن سمیٹنے لگیں اور عنایا کے ابو کے لیے چائے رکھی ۔ وہ کھانے کے بعد چائے ضرور پیتے تھے ۔ عنایا اپنے کمرے میں آ کر وہ بکس کھولنے لگی ۔ " ارے یہ کیا اِس میں تو لا حاصل ناول ہے ہی نہیں" اُس نے پریشانی سے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔" بابا سے کہا بھی تھا وہ ضرور لانے کا اور وہ وہی بھول گئے میری کتنی پسندیدہ کتاب ناول ہے وہ " اُس نے ناولوں کو ہٹا ہٹا کر دیکھا مگر اُسے لا حاصل ناول کی کتاب کہیں نہیں ملی ۔" چلو کوئی نہیں بابا کو کل بول دوں گی وہ لے آئیں گے" اُس نے خد کو تسلی دیتے ہوئے کہا ورنہ وہ رونے کے در پر تھی ۔ اُس نے بکس سمیٹ کر بُک شیلف میں رکھی اور وضو کرنے گئی کیونکہ اذان کا وقت ہونے والا تھا ۔