نایاب صحبت از قلم: لائبہ نور

2898 Words
Episode 4.... وہ ٹیرس پر کھڑا ہینڈل پر ہاتھ رکھے آسمان میں دیکھ رہا تھا کتنی خاموش تھی کتنا سکون تھا وہاں اور ایک اِس کا دل تھا جو بے سکون تھا اور خالی تھا وہ آسمان کو دیکھے جا رہا تھا جب بہت ہی خوبصورت آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی اور وہ آواز اذان کی تھی۔ وہ اُس آواز میں کھو سا گیا تھا اُسے اُس کے دل میں سکون اُترتا ہوا محسوس ہوا وہ جو بے سکون تھا اب وہ پُر سکون تھا اور وہیں آنکھیں بند کر کے اُس آواز کو محسوس کر رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا یہ اُس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ " یہ کیا ہوتا ہے میرے ساتھ اذان کی آواز مجھے پُر سکون کرتی ہے اللّٰہ کے نام سے مجھے سکون ملتا ہے جیسے کسی نے میرے جلتے دل کو قرار بخشا ہو ایسا کیوں ہوتا ہے مجھے علی اور اشعر سے بات کرنی چاہیے اس بارے میں" اُس نے سوچتے ہوئے کہا اور پھر واپس آپنے کمرے کی طرف رخ کیا ۔ صبح فجر کے وقت کچھ لوگ اللہ کے لیے نماز پڑھ رہے تھے تو کچھ لوگوں کو اللّٰہ نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں بلایا تھا۔ وہ نماز پڑھ کر اب ناشتہ کرنے نیچے آئی ہوئی تھی ناشتہ کر کر یونی کے لیے تیار ہوئی نیلے رنگ کا فراک پہنے مہرون رنگ کی شال اوڑھے وہ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ وہ کلائی میں گھڑی پہنتے ہوئے نیچے آئی ۔"امی بابا کہاں ہیں"اُس نے یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا ۔ ابھی اُس کی امی جواب دیتیں کہ کسی کی آواز آئی " اسلام وعلیکم"۔اُن دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا "وعلیکم السلام بیٹی آئو" عنایا کی امی نے اُسے اندر بلاتے ہوئے کہا ۔ "وعلیکم السلام تم یہاں اس وقت اتنی جلدی کیسے اٹھ گئی" عنایا نے حیران ہوتے فوراً کہا اور آخری بات دھیرے سے کہی جسے صرف زویا نے ہی سنا ۔"اُسے اندر تو آنے دو ائو بیٹی تم بیٹھو ناشتہ کرو گی بتائو کیا کھانا ہے میں بنا دیتی ہوں ابھی" اُس کی امی نے بڑے پیار سے پوچھا ۔ وہ تو بس اپنی امی کو دیکھ کر ہی رہ گئی کہ جب صبح کے وقت اس نے کہا تھا کہ اسکو آلو کا پراٹھا کھانا ہے تب تو انہوں نے کہا تھا واپسی پر اور اس زوئی کے لیے دیکھو کیسے خد پوچھ رہی ہیں ۔ زویا عنایا کو دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ کیا بات ہے اُس کو بہت ہنسی آ رہی تھی اُس کی حالت پر لیکن کنٹرول کر لی ۔" ارے نہیں خالہ جان بہت شکریہ آپ کا میں ناشتہ کر کے آئی ہوں بس اِسے لینے آئی ہوں تاکہ ساتھ جائیں یونی"اُس نے دل سے شکریہ ادا کرتے پھر عنایا کی طرف دیکھ کر کہا ۔ " اچھا بیٹا تم جائو اس کے ساتھ تمہیں لینے آئی ہے تمہارے بابا کو میں بتا دوں گی" انہوں نے عنایا کو دیکھتے ہوئے کہا ۔" خالہ جان ماما کہ رہیں تھیں کہ میں روز عنو کو اپنے ساتھ ہی لے کر جائوں اور واپسی پر بھی ساتھ ہی آئیں ہم" زویا نے عنایا کی امی سے مخاطب ہوکر کہا ۔ " اچھا ٹھیک ہے بیٹا "انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔" زویا اب چلیں دیر ہو رہی ہے "وہ جو کب سے ایک ہی بات پر حیران تھی اچانک یونی ورسٹی کا خیال آتے ہی ہوش میں آئی ۔ "ہاں چلو خدا حافظ خالہ جان " زویا نے نکلتے ہوئے کہا ۔" ایک منٹ زویا بابا کو بتا کر آتی ہوں " اُس نے اپنے بابا کے کمرے کی طرف بھاگتے ہوئے کہا ۔وہ دونو اِس کی تیزی پر ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئی ۔ " چلیں بیٹا ؟" اُس کے بابا نے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔" بابا زویا آئی ہے لینے میں اُس کے ساتھ جا رہی ہوں اور واپسی بھی اُسی کے ساتھ آئوں گی" اُس نے جلدی جلدی سب بتایا ۔ " اچھا ۔۔۔۔چلو ٹھیک ہے پھر " انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔" خدا حافظ بابا" وہ کہہ کر چلی گئی ۔" اب چلو " اُس نے زویا کے قریب آتے اُس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف رخ کرتے کہا ۔ " ہمم" اُس نے بس اِتنا کہا ۔وہ لوگ باہر آئیں تو وہ گاڑی سے ٹیک لگائے موبائل میں مصروف تھا ۔ " چلیں بھائی " زویا کے کہتے اُس نے موبائل واپس جیب میں رکھا اور ایک نظر زویا کے ساتھ کھڑی اُس پری کو دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ وہ تینوں اب یونی کے لیے نکل چکے تھے ۔" اوئے تم مجھے یہ بتاؤ آج تم جلدی کیسے اٹھ گئی اور یہ تمہارا بھائی بھی " وہ جو کب سے حیران تھی کسی بات پر اب رہا نہ گیا تو پوچھ لیا ۔" اچھا تو اسی لئیے تم حیران تھی " اُس نے دبی دبی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا ۔ " ہاں نہ اب بتاؤ تم" اُس نے دھیمی آواز مگر تیز لہجے میں پوچھا ۔" یار امی نے اٹھا دیا کہہ رہیں تھیں کہ تمہیں بھی ساتھ لے کر جایا کریں ایک ہی یونی میں پڑھتے ہوئے الگ الگ جانا انہیں اچھا نہیں لگ رہا تھا تو انہوں نے کہا اب سے ہم جلدی اٹھا کریں اور عنایا میم کو بھی ساتھ لے کر جائیں" اُس نے بیگ سے موبائل نکالتے ہوئے کہا ۔" اوہ خالہ جان کتنی سوئیٹ ہیں اور ایک انکے بچے توبا " اُس نے کہتے ہوئے آخری بات آہستہ سے کہتے پھر خد ہی ہنس دی ۔اِس کی خیر نہ ہوتی اگر وہ سن لیتی مگر اِس بات سے انجان تھی کہ جس کو بلکل بھی سنانا نہیں چاہتی تھی اُس نے سن لیا تھا۔ وہ گاڑی چلا رہا تھا پر اُس کے کان عنایا کی باتوں پر ہی تھے۔" اوہ تو یہ مِس عنایا یہ سوچتی ہیں پر ہم نے ایسا کیا کر دیا جو یہ ہمیں توبا کہہ رہیں ہیں کوئی بات نہیں پوچھوں گا شادی کے بعد چھوڑوں گا تو میں بھی نہیں اب"اُس نے سوچتے سوچتے کیا کیا کہہ دیا تھا اُسے اندازہ نہیں تھا اگر وہ ایک بار اپنی کہی بات پر غور کر لیتا تو یقیناً وہ بے یقین ہوتا کہ اِس نے ایسا کہا ۔وہ اب گاڑی چلانے میں مصروف تھا زویا موبائل میں اور عنایا کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھیں اچانک موبائل بجنے پر سب کا دیہان اُس موبائل پر گیا جہاں Hk کالنگ لکھا آ رہا تھا ۔ زویا ایک نظر دیکھ کر اپنے فون میں مگن ہو گئی جب کہ دو نفوس اب پریشان تھے اور شاید وجہ نہیں جانتے تھے ۔" یہ Hk کون ہے کہیں لڑکی تو نہیں مطلب اِن کی بھی گرل فرینڈ ہے نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کیا پتا کوئی لڑکا ہو انکا دوست لیکن اگر لڑکی ہوئی تو ایک سیکنڈ میں کیوں سوچ رہی ہوں میری بلا سے جو بھی ہو " وہ سوچتے ہوئے خد سے کہے جا رہی تھی پھر سر جھٹک کر زویا کے موبائل میں دیکھنے لگی جو اُسے کہہ رہی تھی" لو تم دیکھ لو " اور وہ اُس کو دانت دکھا رہی تھی ۔"یہ حیا کیوں کال کر رہی ہے یہ لڑکی اب مجھے نہیں پسند اِسکو سمجھ کیوں نہیں آتی وہ تو شکر ہے کہ اِس کا نام پورا نہیں لکھا ورنہ اگر ابھی یہ لوگ دیکھ لیتے تو کیا ہوتا شکر ہے نہیں دیکھا"اُس نے سکون کا سانس لیتے ہوئے کہا ۔ گاڑی یونی کے گیٹ پر رکی وہ تینوں اتر کر اندر داخل ہوئے ۔ حماد اپنے دوستوں کی طرف اور وہ دونوں اپنی دوست کو ڈھونڈنے لگیں ۔" یار دعا کر آج اِس نے کسی سے پنگا نہ لیا ہو مجھے تو اِس ہی سمجھ نہیں آتی کیا ہوگا اِس کا اگر کسی دن اِس کو ٹکر کا مل گیا کوئی انسان تب کیا ہوگا "زویا نے یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ہوئے عنایا سے کہا ۔ "اور کیا ہونا اگر کوئی ٹکر کا مل گیا تب بھی سحرش ہی جیتے گی اُسے ہارنے تھوڑی دوں گی میں" عنایا نے گردن اکڑاتے ہوئے کہا تو زویا مسکرا دی کہ یہ لڑکی تب تک معصوم ہے جب تک کوئی اِس کی دوستوں سے حرکت نہ کرے ویسے تو وہ خد کے لیے خد بھی نپٹ سکتی ہیں لیکن عنایا اپنے لئے نہیں لیکن ان کے لیے ضرور سب کچھ کر سکتی ہے۔ "وہ دیکھو وہ رہی سحرو"عنایا کو آخر کار وہ مل ہی گئی تھی اُس نے زویا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے خیالوں سے باہر آئی ۔ "لیکن یہ آج کتاب کیسے پڑھ رہی ہے یہ تو اور یہ کوئی یونی کی کتاب تو نہیں لگ رہی ہے" وہ دونوں اُس کے قریب آتے ہوئے کہنے لگیں۔ " اسلام وعلیکم" ان لوگوں کے ایک دم سلام کرنے پر وہ گھبرا گئی اور فوراً سر اٹھا کر دیکھا تو وہ دونوں دانت نکالے اُسے دیکھ رہیں تھیں ۔"کیا ہے وعلیکم السلام ڈرا دیا مجھے میں ناول پڑھ رہی تھی"اُس نے ایک سانس میں بولنا شروع کر دیا وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر پھر اُس کو دیکھ کر ہنسنے لگیں "تم اور ناول ہو ہی نہیں سکتا تم کب سے ناول پڑھنے لگیں بھئیییی" زویا ہنستے ہوئے اُس کے ساتھ بیٹھتے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب سائڈ پر رکھتے ہوئے کہنے لگی۔ ابھی وہ اِس بات کا جواب دیتی کہ " ہاں بھئ یہ چینجنگ کیسے اور کب ہوئی" عنایا نے کہا ۔ " ہاں پہلے تم لوگ بول لو پھر میں بولتی ہوں" وہ دوبارہ اپنے ناول کا ورق ڈھونڈنے لگی جو کہ اِن لوگوں کے ایک دم سے آنے سے کھو گیا تھا ۔" اچھا اچھا بولو" وہ دونوں ایک ساتھ بولیں ۔ " ہمم اصل میں وہ میں اپنی کتاب لینے گئ تھی finance کی تو وہاں مجھے یہ ناول دکھا "امربیل" تو میں نے یہ کتاب نکال کر دیکھی اور تھوڑا سا پڑھا تو یہ بہت پسند آیا مجھے اور میں نے لے لی پھر " اُس نے ساری کہانی بتاتے ہوئے کہا۔" اوہ اچھا " ان دونوں نے سمجھتے ہوئے کہا ۔ " ویسے یہ میں نے پڑھا ہوا ہے میں بتائوں آگے کیا ہوگا " زویا نے ناول دیکھتے ہوئے کہا ۔" نہیں بہت شکریہ story spoiler نہیں بنو میں خد پڑھوں گی" سحرش نے فوراً کتاب لی کہ کہیں یہ بتانا شروع ہی نہ کر دے اِس سے کوئی بعید بھی نتو نہیں ۔ " کہو تو میں بتا دوں ساری مجھے یہ سارا ناول منہ زبانی یاد ہے" اُس نے کہتے ہوئے آخر میں اُداسی سے کہا ۔ " میں سمجھ سکتی ہوں یار پر اب کیا کر سکتے ہیں اِس ناول کا کیا ہوتا اگر وہ دونوں مل جاتے" عنایا نے بھی دکھ سے کہا. تم لوگوں کو کیا ہوا اب اور کون مل جاتے " سحرش نے بیگ بند کرتے ہوئے کہا۔" تم جب یہ پڑھو گی تب پتا چلے گا " عنایا نے نہ دکھنے والے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ " اچھا بند کرو یہ ڈرامے بازی کلاس میں چلتے ہیں " سحرش نے اٹھتے ہوئے کہا ۔ " ہاں چلو " وہ دونوں بھی کھڑی ہوئیں۔ وہ کلاس میں پہنچ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئیں تھیں ۔" زوئی انگلش کی کتاب دینا عنایا نے اُس سے کتاب مانگتے ہوئے کہا ۔ " ہاں روکو " اُس نے اپنا بیگ چیک کرتے ہوئے کہا۔" ارے کتاب کہاں گئی ابھی تو یہیں تھی" اُس نے بیگ ایک بار پھر صحیح سے چیک کرتے ہوئے کہا ۔ " کیا ہوا اُن دونوں نے اُسے پریشان دیکھا تو پوچھا ۔" یار کتاب پتا نہیں کہاں گئی ابھی تو یہیں تھی میرے ہاتھ میں " اُس نے اُن دونوں کے دیکھتے ہوئے کہا ۔ " ٹھیک سے دیکھا ہے بیگ میں نہیں ہے " عنایا نے تشویش سے کہا ۔ " یار عنو کتاب ہے پین نہیں ہے جو صحیح سے دیکھوں وہ سامنے ہی نظر آجاتی " زویا نے اُس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا ۔ " اوہ ہ ہ یار پتا نہیں میں ڈٹیکٹو بن بھی پائوں گی یا نہیں" اُس نے دکھ سے کہا ۔" جس طرح کی تمہاری حرکتیں ہیں نہ ایسے تو بہت مشکل ہے" زویا نے مزاحیہ انداز میں کہا تو سحرش بھی اپنی ہنسی کنڑول کرنے لگی کہ اگر اُس نے ہنستا ہوا دیکھ لیا تو زویا کے ساتھ ساتھ وہ اُس سے بھی ناراض ہو جائے گی ۔ جب اُس کا ناراض اور غصے والا چہرہ دیکھا تو اپنی ہنسی کو ضبط کیا اور کہا ۔ " ارے ہاں میں تو اپنی کتاب وہیں نیچے ہی بھول آئی ہوں تم لوگ رکو میں لے کر آتی ہوں" وہ جلدی سے کہہ کر چلی گئی یا ایسا کہیں کہ بھاگ گئی اور بھاگنے میں ہی اُس کی بہتری تھی کہ گویا عنایا اپنے سامنے رکھی ہوئی کتابیں ہی اٹھا کر اُس کے سر پر مارنا شروع کر دے ۔ " یار سحرو تم اُسے کچھ کہتی کیوں نہیں وہ ہر بار ایسا کرتی ہے بدتمیز نہ ہو تو" عنایا نے منہ بنا کر ناراضگی سے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا ۔ " یار چھوڑو نہ وہ مزاخ کر رہی ہے اور ویسے بھی تم بزنس پڑھ کر ڈیٹکٹو بنو گی کیا تم میرے لئے ڈیٹکٹو بن جانا ٹھیک ہے" سحرش نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا اُس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ہنسی روکنے سے ۔ " اوہ ہاں یہ بھی ہے ٹھیک ہے پھر میں تمہارے لئے ڈیٹکٹو بن جائوں گی " اُس نے سحرش سے گلے لگتے کہا ۔ اب اُس کی برداشت ختم ہو رہی تھی" یار رکو میں آتی ہوں اُسے دیکھ کر پتا نہیں کہاں رہ گئی ہے تم بیٹھو یہیں ٹھیک ہے " وہ جلدی سے کہتے بنا اُس کا جواب سنے باہر کو بھاگی ۔ " ارے اِسے کیا ہوا خیر میں جب تک اسی کی کتاب سے کام کر لیتی ہوں" وہ خد سے کہتے کام کرنے لگی ۔ تین بلیک رنگ کی گاڑیاں یونی کے گیٹ کے پاس رُکیں جس میں سے تین لڑکے یا ایسا کہیں کہ شہزادے اترے تو غلط نہیں ہوگا وہ تینوں آج ایک ساتھ پہنچے لیکن اپنی اپنی گاڑی میں آج اُن تینوں نے اشعر کے ہی کہنے پر بلیک پینٹ شلوار قمیض پہنی تھی پر بہت باتیں سنانے کے بعد کہ تُو لڑکی ہے کیا جو میچنگ پہنے گا ہم نہیں پہن رہے ہیں یہ وہ پر پھر اشعر کی منتیں کرنے کی وجہ سے پہن لیے تھے جس میں وہ کسی ریاست کے شہزادے لگ رہے تھے ۔ وہ تینوں ایک دوسرے سے مل کر اندر یونی میں داخل ہوئے ۔ وہ تینوں کلاس میں جا رہے تھے کہ اچانک اشعر کو کوئی دکھا اور وہ وہیں رک گیا بس اسی کو دیکھ رہا تھا۔" کیا ہوا چل نہ رک کیوں گیا" علی نے اُسے ہلاتے ہوئے کہا پر وہ پاگلوں کی طرح چلتا گیا بس۔"ابے یہ گدھا کہاں جا رہا ہے"علی نے ڈینیل کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ " رک جا دیکھتے ہیں کہاں جا رہا ہے یہ" ڈینیل نے علی کو روکتے ہوئے کہا جو اُس کے پیچھے جا رہا تھا ۔ وہ سیدھا چلتے چلتے اُسے سے ٹکرایہ جسے وہ دیکھتے ہوئے آرہا تھا اور اُس کے ہاتھ سے کتاب گر گئی ۔ " اندھے ہو کیا دیکھ نہیں سکتے یا جان بوجھ کر اندھے بن نے کی ایکٹنگ کر رہے ہو پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں بدتمیز نہ ہو تو عجیب خوبصورت لڑکی دیکھی نہیں اور آگئے ہنہ" وہ بولی جا رہی تھی پر سن کون رہا تھا وہ کھو گیا تھا بس ۔" ہیلو مسٹر تم سے بات کر رہی ہوں میں ایک منٹ تم تو وہی ہو نہ اُس دن والے " اُس نے ایک دم سے کچھ یاد آنے پر کہا۔اُس نے بس" جی" کہا ۔ " تم پیچھا کر رہے تھے نہ میرا کیا مسئلہ ہے تمہیں جوکر بدتمیز چھچھورا" اُس نے اُسے کئی لقب دے دیئے تھے ۔ " اوہ ھیلو مِس میں آپ کو جوکر لگتا ہوں ؟ " اُس نے صدمے سے کہا کہ اتنے حسین لڑکے کو وہ آرام سے جوکر کہہ گئی تھی ۔" جی بلکل اب ہٹو سامنے سے کلاس میں جانا ہے"اُس نے اُس کی حالت سے لطف اندوز ہوتے کہا ۔ "جو بھی کہہ لو پر مجھے چھچھورا نہ کہو میں عام لڑکوں جیسا نہیں ہوں جو سب کے پیچھے جاتا پھروں" اُس نے سنجیدگی سے کہا تو وہ حیران ہو گئی کہ اتنی جلدی ایکسپریشن کیسے بدلے اِس نے۔" تو۔۔۔تو میرے پیچھے بھی مت آئو سمجھے ورنہ۔۔۔۔ورنہ اپنے بھائی سے کہہ دوں گی میں تمہارا " اُس نے پیچھے ہوتے ہوئے ڈر سے کہا کیونکہ وہ اُس کی طرف بڑھ رہا تھا وہ کہتے جلدی سے بھاگ گئی۔وہ اُس کو جاتا دیکھ رہا تھا پھر ہنس دیا " ڈرپوک شیرنی" اُس کو نیا خطاب دیتے وہ جانے لگا کہ اُسے زمین پر کچھ ملا " یہ کیا ہے" اُس نے کہتے ہوئے اٹھایا"اوہ یہ تو آئی ڈی کارڈ ہے میری ڈرپوک شیرنی کا" اُس نے دیکھتے ہوئے کہا ۔" نام ۔ زویا مَلِک ، والد کا نام ۔ شاہزیب مَلِک ، عمر ۔ بیس سال نوٹبیڈ یار " اُس نے کہتے ہوئے وہ کارڈ اپنی جیب میں رکھا اور جیسے ہی واپس جانے کے لیئے مڑا تو گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہوا کیونکہ دو نفوس اُسے ہی دیکھ رہے تھے ایک غصے سے تو دوسرا سنجیدگی سے مگر وہ آنکھوں سے صرف ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے" کیا تھا یہ ؟" اُس نے سمجھتے ہوئے جواب دیا کہ" یار یہی تو تھی جو مجھے پسند ہے " اُس نے ایک اور قدم پیچھے لیتے ہوئے کہا کہ کہیں یہ لوگ اِسے مارنا شروع ہی نہ کر دیں ۔
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD