Episode 5....
" اوہ اچھا پر یہ تُو دیوانہ بنا اِس کے پیچھے کیوں جا رہا تھا ہم کب سے تجھے آوازیں دے رہے تھے بہرہ ہو گیا تھا کیا جو سن نہیں رہا تھا " علی نے اُس کے قریب جاتے ہوئے کہا ۔ " یار سچ میں کچھ سنائی نہیں دیا بس وہ ہی دکھ رہی تھی مجھے " اُس نے معصوم سی شکل بناتے ہوئے کہا ۔ " بس بس رہنے دے جیسے ہم تجھے جانتے نہ ہوں تُو خد سنّنا نہیں چاہ رہا تھا " ڈینیل نے بھی قریب جاتے ہوئے کہا ۔ " یار کیا ہو تم دونوں سمجھو نہ" اُس نے آنکھیں ٹپکاتے ہوئے کہا تو وہ دونوں ہنسنے لگے " ابے تُو لڑکی ہے کیا کیا حرکتیں کرتا ہے یہ اور کیا بات کر رہا تھا تُو جو وہ ڈر کے بھاگ گئی میں بتا رہا ہوں اگر تُو نے اُسے ڈرانے کی کوشش کی تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا" ڈینیل نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ۔ " تم دونوں سے برا کوئی ہے بھی نہیں اُس نے مجھے چھچھورا کہا اور جوکر بھی کہا" اُس نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔ وہ دونوں اِس کی آخری بات پر ہنسنے لگے " جوکر کہا اُس نے تجھے" ڈینیل نے اپنی ہنسی ضبط کرتے نہایت سنجیدگی سے کہا ۔ ایک پل کو تو علی بھی حیران رہ گیا ۔ " ہاں یار " اشعر نے دکھ سے کہا ۔ " وہ سب تو ٹھیک ہے پر اُس نے تجھے پہچانا کیسے کہ تُو جوکر ہے" ڈینیل کہتے ہوئے آخر میں ہنسنے لگا بات سمجھ آنے پر علی کا بھی قہقہ بلند ہوا ۔ " یار تم لوگ نہ بس رہنے دو میں تم لوگوں کا سوتیلا دوست ہوں نہ اسی لئے تم لوگ ایسا کرتے ہو میرے ساتھ" اُس نے جھوٹا ناراض ہوتے ہوئے کہا ۔ " اچھا اچھا اب یہ اداکاری بند کر اور کلاس میں چل" اُن دونوں نے اُس کو کلاس کی طرف لے جاتے ہوئے کہا ۔ وہ کلاس میں آئی تو وہ دونوں باتوں میں مصروف تھیں ۔ وہ آ کر کتاب ٹیبل پر پٹھکنے کے انداز میں رکھی تو اُن دونوں نے اُسے دیکھا ۔ " کیا ہوا زویا" سحرش نے اُسے غصے میں دیکھا تو سنجیدگی سے پوچھا۔ " کچھ نہیں یار بس وہ لفنگا پھر مل گیا تھا اور عجیب عجیب باتیں کر رہا تھا بدتمیز کہیں کا دل کر رہا تھا اُس کا سر پھاڑ دوں" زویا نے غصے سے کہا ابھی سحرش کچھ کہتی کہ زویا پھر بول پڑی ۔ " لو شیطان کا نام لیا اور شیطان ہاظر " زویا نے کلاس کے گیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ دونوں بھی پیچھے مڑ کر دیکھنے لگیں۔ " یہاں تو تین ہیں کون سا تمہارا والا ہے میرا مطلب ہے کون تنگ کر رہا تھا" عنایا نے اُن دونوں کی گھوری پر بات سنبھالتے ہوئے کہا ۔ " یار یہ بیچ والا یہی تو بدتمیزی کر رہا تھا بدتمیز کہیں کا" زویا نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کیونکہ کپڑے ، بالوں کا اسٹائل تو ان تینوں کا سیم تھا ۔ " اچھا تو یہ ہے سبق تو سکھانا پڑے گا اِس کو اب " سحرش نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا ۔ وہ تینوں بھی اب اپنی جگہوں پر آ کر بیٹھ گئے تھے ۔ اشعر کی نظریں ادھر اُدھر بھٹک رہی تھیں اور جس کو تلاش کر رہیں تھیں وہ مل گئی تھی ۔ وہ جو اپنا کام کر رہی تھی کسی کی نظریں مسلسل خد پر محسوس کرتی نظریں اُٹھا کر دیکھا تو وہی اِس کو دیکھ رہا تھا ۔ اِس کے دیکھنے پر بھی اُس نے نظریں نہیں پھریں تھیں مسلسل اِسے ہی دیکھے جا رہا تھا تو اُس نے ایک غصے بھری نظر اُس پر ڈال کر ایک کتاب اپنے آگے کر لی جس سے وہ اِسے دیکھ نہ سکے کچھ دیر بعد اُس نے کتاب ہٹا کر دیکھا تو وہ اب بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا وہ اِس کو بعد میں سیدھا کرنے کا سوچتی اپنا پڑھنے لگی کلاس بہت بڑی ہونے کی وجہ سے کوئی پیچھے بیٹھے بچوں کو دیکھ نہیں سکتا تھا اِسی لیے وہ اُسے دیکھے جا رہا تھا ۔ اپنی کلاسز پوری کرنے کے بعد سب بچوں کو کچھ کھانے کا وقت دیا گیا تھا وہ تینوں اپنی ٹیبل پر بیٹھیں کھانے میں مصروف تھیں جب ایک پیارا اور معصوم شکل کا لڑکا اُن تک آیا وہ اپنا کھانا بھول کر اُسے دیکھنے لگیں ۔ " کتنی معصوم شکل کا لڑکا ہے یہ" وہ تینوں سوچنے لگیں ۔ " اہم کیا ہم یہاں بیٹھ جائیں آپ کی تو ویسے بھی دو کرسیاں کھالی ہیں پلیز کہیں اور جگہ بھی نہیں ہے " اُس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔ ابھی وہ کچھ کہتی کہ زویا بول پڑی" ہاں ہاں کیوں نہیں بیٹھو تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے کیا " زویا نے کہتے آخر میں سوال کیا ۔ " جی میری بہن ہے مجھ سے ایک ائیر پیچھے ہے میں آپ کی کلاس کا ہوں اور آپ لوگوں کو جانتا بھی ہوں آخر کو آپ اتنے ذہین اور لائق سٹوڈنٹس ہیں ماشاء اللّٰہ سے " اُس نے ساری تفصیل بتاتے آخر میں اُن کی تعریف کی تو وہ مسکرا دیں اتنے میں اِس کی بہن آئی ۔ " بھئیا کہاں بیٹھے" اُس نے اپنے بھائی کو دیکھتے پوچھا ۔ " ایشل یہاں اور اِن سے ملو یہ میری کلاس میں پڑھتی ہیں لیکن ان دونوں کا تو نام نہیں جانتا مگر یہ زویا ہیں" اُس نے اُن کی ٹیبل کی طرف اِشارہ کرتے اُسے اِن سے ملواتے ہوئے کہا ۔ " اہم ھیلو آپی" اُس نے شرماتے ہوئے کہا تو وہ تینوں اِس کے انداز پر مسکرا دیں۔ " ھیلو ایشل" وہ کہتیں اُسے اپنے ساتھ بٹھانے لگیں ۔ " اور آپ کا نام کیا ہے " زویا اُس سے پوچھنے لگی ۔ " میرا نام سائم ہے " اُس نے مسکراتے ، زویا کے برابر والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔ " اچھا بہت پیارا نام ہے آپ دونوں کا" زویا نے بھی جواباً مسکراتے ہوئے کہا ۔ اُس نے دل پر ہاتھ رکھتے سر کو جھکاتے ہوئے شکریہ کہا تو وہ ہنسنے لگی اور باقی سب مسکرا دئیے۔ ایک دوسرے کو نام بتاتے وہ لوگ مل کر کھانا کھانے لگے تھے ۔ لیکن تھوڑی دور بیٹھے یہ منظر کسی نے غصے بھری نگاہوں سے دیکھا تھا " مجھ سے تو کبھی ایسے بات نہیں کی اور اِس کو ساتھ بھی بٹھا لیا پر خیر کوئی بات نہیں میں بھی اشعر خان ہوں دیکھ لوں گا اِن دونوں کو " وہ غصے میں انہیں دیکھ کر سوچ رہا تھا پھر کھانے میں مصروف ہو گیا ۔ کھانے کے بعد وہ سب اپنی کلاسز لینے چلے گئے تھے ۔ کلاسز لینے کے بعد وہ لوگ گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے ۔ " کتنی گرمی ہے یار" عنایا نے چادر کے کونے سے چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا ۔ ہاں اِسی لیے تو کہہ رہی ہوں جلدی چلو " زویا نے کہا تو وہ لوگ جلدی جلدی اپنی کار کی طرف آ گئے ۔ وہ کار میں بیٹھ کر اپنا چہرہ صاف کرنے لگی تھوڑی سی گرمی سے ہی اِس کا چہرہ لال ہو گیا تھا ۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں تھی زویا کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد اب عنایا کے گھر کی جانب گاڑی کا رُخ کیا ۔ " کیسی ہو " اُس نے گاڑی میں لگے مرر سے اُسے دیکھ کر پوچھا ۔ " میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں " اُس نے جواب دیتے اُس کا حال پوچھا ۔ " میں بھی ٹھیک ہوں کیسا رہا دن " اُس نے جواب دیتے ایک اور سوال کیا ۔ " ٹھیک " اُس نے بس اِتنا کہا تو وہ بھی خاموش ہو گیا اُس کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد وہ واپس گھر چلا گیا ۔ " اسلام وعلیکم امی " اُس نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔ " وعلیکم السلام فریش ہو کر آجائو کھانا کھائیں پھر " اُس کی امی نے کچن سے ہی جواب دیتے ہوئے کہا ۔ " جی " وہ اتنا کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ فریش ہو کر کھانا کھانے کے بعد وہ نماز پڑھ رہی تھی ابھی دعا ہی مانگ رہی تھی کہ اُس کا فون بجا ۔ دعا مانگ کر اُس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو "سحرو کالنگ " اسکرین پر جگمگا رہا تھا اُس نے مسکراتے ہوئے کال اٹھائی ۔ " ہیلو" اُس نے کہا ۔ " ہیلو کیسی ہو کھانا کھایا ، نماز پڑھی ؟" سحرش نے پوچھا ۔ " میں ٹھیک ہوں کھانا بھی کھا لیا اور نماز بھی پڑھ لی تم بتاؤ تم نے کھایا اور نماز پڑھی ؟" اُس نے جواب دیتے پھر اُسی سے سوال کیا ۔ " ہاں کھانا بھی کھا لیا اور نماز بھی پڑھ لی یار زویا کا موبائل اوف ہے شاید اُس کو کال نہیں لگ رہی " اُس نے جواب دیتے زویا کے بارے میں بتایا ۔ " اچھا کیا پتا سو رہی ہو " اُس نے جواب دیا ۔ " ہاں ہو سکتا ہے کیونکہ وہ نیند پر کمپرومائز نہیں کر سکتی نیند کچھ زیادہ ہی عزیز ہے اُسے " اُس نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی اِس کی بات پر متفق ہوتے ہنس دی ۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ موبائل رکھ کر اب بیڈ پر بیٹھے ناول پڑھ رہی تھی اور ناول پڑھتے پڑھتے ہی سو گئی۔