عشق از قلم : لائبہ نور

1112 Words
ابھی وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ کچھ یاد آنے پر موبائل اٹھا کر کسی کو کال کرنے لگی ۔ اور ایک ہی رنگ پر کال اُٹھا لی گئی ۔ " ہیلو مینو کیسی ہو طبیعت کیسی ہے اب" اُس نے ایک ہی سانس میں کہا تو وہ ہنس دی ۔ " ہاں ہاں میں ٹھیک ہوں بس بخار تھا تو امی نے کہا مت جائو پھر میرا بھی دل نہیں کر رہا تھا تو چھٹی کر لی " اُس نے کہا۔ " اچھا چلو ریسٹ کرو تم تمہیں پتا ہے آج اُس مونسٹر نے غصّہ کیا مجھ پر "یہ اُس سے اپنی ہر بات شیئر کرتی تھی وہ بھی اِس سے ہر بات شیئر کرتی تھی آخر کو بہترین دوستیں تھیں وہ ۔ " یار تو تم بھی اُس کی بات نہ کرتی نہ جب تمہیں پتا ہے وہ کیسے ہیں " اُس نے سمجھانا چاہا ۔ " میں نے نہیں کی تھی یار وہ تو حارث بھائی نے بات شروع کی تھی تو میں نے بھی بول دیا پھر " کہتے آخر میں وہ خد بھی ہنسنے لگی ۔ مناہل صرف مسکرا دی وہ ایسی ہی تھی باتیں بھول جلد ہی بھول جاتی تھی ہر کسی کو معاف کر دیتی تھی یہ بھی بھول جاتی تھی کہ کس نے اِس کے ساتھ برا کیا ہے ۔ لفظوں کے زخم جھیلنے کے بعد بھولنے کا فن یا تو پاگل کو آتا ہے یا کامل کو ...!!! ‏ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ موبائل رکھ کر اب پڑھنے بیٹھی تھی کیونکہ اپنا کام ختم کرنے کے بعد اِس کی تصویریں مناہل کو بھی بھیجنی تھی تا کہ اُس کا بھی کام ہو سکے ۔ کچھ دن بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "کل اتوار ہے کیا پلین ہے پھر کِس کے گھر چلنا ہے" حارث نے کہا ۔ وہ سب یونی میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کیونکہ آخری کلاس فری تھی اِن سب کی اِن کے پروفیسر کی طبیعت کافی دنوں سے خراب تھی جس وجہ سے وہ نہیں آ رہے تھے ۔ کچھ بچے خوش تھے کہ انہیں فلحال پڑھنا نہیں پڑ رہا تھا تو کچھ افسردہ تھے کیونکہ اُن کی پڑھائی کا لوس ہو رہا تھا اگلے منتھس سے پیپرز تھے ۔ " صائمہ مامی ( نورعین کی امی)کے گھر سہی ہے سب مل بھی لیں گے اُن سے" مناہل نے خوشی سے مشورہ دیا حارث تو اِس کو خوش دیکھ کر ہی مسکرا دیا باقی لوگ بھی اس کی بات سے متفق تھے نورعین بھی کافی خوش تھی کہ سب اِس کے گھر جمع ہونگے کل ۔ " ٹھیک ہے پھر ہمارے گھر کا ڈن ہو گیا" نورعین نے خوشی سے کہا تو سب سر ہاں میں ہلاتے مسکرا دئیے سوائے ارمان کے وہ اِس وقت بھی سنجیدہ تھا مسکرانا تو جیسے اُس پر گناہ تھا یہ صرف نورعین سوچ سکی کہہ نہ سکی۔ ابھی وہ لوگ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک لڑکا بھاگتا ہوا وہاں آیا ۔ " ارمان ۔۔۔۔ ارمان بھائی آپ کو پرنسپل نے آپنے آفس میں بلایا ہے" بھاگنے کے باعِث اُس کی سانس پھول رہی تھی وہ جلدی جلدی کہتا وہاں سے چلا گیا بنا اُس کا جواب سنے ۔ " کیوں بھائی آپ کو کیوں بلایا ہے۔ " ہادی نے کہا تو ارمان سمیت سب اُس کو دیکھنے لگے جیسے کہ رہے ہوں میں/ یہ بھی یہیں تھا اِس کو / مجھے کیسے پتا ہوگا ۔ ہادی کھسیانی ہنسی ہنستے واپس موبائل میں مصروف ہو گیا تو وہ سب بھی واپس اپنے موبائل میں مصروف ہو گئے اور ارمان پرنسپل آفس کی طرف چل دیا ۔ " مے آئی کم ان سر" اُس نے آفس کا گیٹ کھولتے کہا ۔ " ارے بیٹا آؤ اور اکیلے میں انکل کہا کرو سر نہیں " انہوں نے فائل بند کرتے مسکراتے ہوئے کہا ۔ " نہیں سر یونی میں آپ سر ہی ہیں باقی باہر تو آپ میرے انکل ہی ہیں " وہ اندر آتے کہنے لگا تو وہ اور بھی مسکرا دئیے ۔ " یہی وجہ ہے جو تم میرے اتنے فیورٹ ہو " انہوں نے اُسے بیٹھنے کا اِشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ مسکراتے بیٹھ گیا ۔ " تو میں نے تمہیں اِسی لیے بلایا کہ تمہیں تو پتا ہے پروفیسر حمزہ کی طبیعت کافی دنوں سے ٹھیک نہیں ہے وہ نہیں آ رہے جس وجہ سے بچوں کی پڑھائی کا نقصان ہو رہا ہے اگلے مہینے سے پیپرز بھی ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ آپ پروفیسر بن کر بچوں کو پڑھائیں جب تک کوئی نیا پروفیسر مل نہیں جاتا پروفیسر حمزہ نے بتایا تھا کہ آپ کافی اچھا پڑھتے ہیں اور وہ جب نہیں ہوتے تو آپ بہت آسانی سے کلاس ہینڈل کر لیتے ہیں تو بس اِسی لئے آپ ہی کو بلایا میں نے اب آپ اپنی رائے دیں کیا ہماری مدد کریں گے آپ ؟" انہوں نے سنجیدگی سے کہا اور بات ختم کر کے اُس کی رائے مانگی ۔ " اہم سر بہت شکریہ آپ کا آپ نے مجھے اس قابل سمجھا میں ضرور آپ کی مدد کروں گا" اُس نے بھی سنجیدگی سے جواب دیا ۔ " شاباش میرا بیٹا یہی اُمید تھی مجھے آپ سے اور میں جانتا ہوں آپ اپنی پڑھائی بھی کر ہی لیں گے" انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ " جی انشاء اللہ سر میں پوری کوشش کروں گا آپ کو شکایت کا موقع نہ ملے چلتا ہوں سر خدا حافظ" اُس نے اٹھتے ہوئے کہا تو وہ سر ہاں میں ہلاتے مسکرانے لگے ۔ اُس کے جانے کے بعد وہ اپنا کام کرنے لگے ۔ وہ واپس آیا تب تک بیل بج چکی تھی وہ سب اپنی اپنی کار کے پاس کھڑے اِسکا انتظار کر رہے تھے ۔ وہ سنجیدگی سے چلتا ایک ہاتھ جیب میں ڈالے نظر سامنے رکھے بہت سی لڑکیوں کا دل دھڑکا گیا تھا لڑکے بھی اِس کو دیکھ کر ایک بار پھر مڑ کر ضرور دیکھتے وہ اِن سب کا عادی تھا ۔ وہ سامنے دیکھ رہا تھا جہاں اِس کی گینگ اِس کا انتظار کرتی اِسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ نورعین کو اپنا دل تیزی سے دھڑکتا محسوس ہوا یہ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا اِس کے ساتھ ورنہ وہ تو روز اُسے دیکھتی تھی کوئی نئی بات نہیں تھی یہ وہ اُسے ہی دیکھے جا رہی تھی جب وہ بلکل اُس کے سامنے آ کھڑا ہوا لیکن دیکھ اہتشام کو رہا تھا جو اِس سے پوچھ رہا تھا کہ کیوں بلایا تھا پرنسپل نے تجھے ۔ " یار گھر بتائوں گا ابھی چلتے ہیں" یہ کہتا وہ اہتشام سے گلے مل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا ۔" مغرور شہزادہ " یہ دوسرا خطاب تھا جو نورعین کی طرف سے اِسے ملا تھا ۔ وہ سب اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اب گھر کی جانب رواں تھے ۔
Free reading for new users
Scan code to download app
Facebookexpand_more
  • author-avatar
    Writer
  • chap_listContents
  • likeADD