باب 1:
چیف وہ لوگ آگئے ہیں۔" ایک آدمی نے آ کر چیف کو بتایا۔
چیف، جو پچھلے دو گھنٹے سے ایک پارٹی کا انتظار کر رہا تھا جس کے ساتھ آج اس کی ڈیل تھی۔ "ہمیں وقت کی بربادی بالکل پسند نہیں لیکن کیونکہ آپ کا اور ہمارا ساتھ اج سے تقریبا 24 سالوں سے ہے اس لیے ہم آپ کی اس غلطی کو معاف کرتے ہیں"
چیف، پارٹی کے سربراہ سے گلے ملتے ہوئے بولا۔
"ہماری تو جان بھی قربان آپ پر مگر آپ تو جانتے ہیں کہ مال اکٹھا کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے اسی لیے اس تاخیر کی وجہ سے ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں۔" پارٹی کا سربراہ گزارش لہجے میں بولا۔
" مال کا کیا بنا؟ ہمارے گاہک اب اور انتظار نہیں کر سکتے۔ اب ان کے پاس ہیروئن بہت کم مقدار میں رہ گئی ہے ہمیں آج ہی مال ان تک پہنچانا ہے۔ میں نے پیسوں کا انتظام کر لیا ہے تم آج مال کو اسی پرانے اڈے پہنچا دو۔" چیف نے پارٹی کے سربراہ کو بتایا۔
" فکر نہ کریں جناب آپ کا مال تیار ہے بس ابھی پہنچانے کی دیر ہے ویسے بھی آج کل کالج اور سکولز میں ہیروان کی بہت مانگ ہو رہی ہے۔" پارٹی کے سربراہ نے انہیں شراب کا ایک جام پیش کرتے ہوئے کہا۔
چیف کے بندے پیسوں سے بھرا بستہ لے کر سامنے آئے۔ چیف اور پارٹی کا سربراہ شراب کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ اچانک سے گولیوں کی آواز آئی اور پورے کمرے میں گونجنے لگی، یہ دیکھ کر سارے لوگ ہوشیار ہو گئے اور جوابی حملے کی تیاری کرنے لگے۔
چیف کے اوپر ہونے والا یہ کوئی پہلا حملہ نہ تھا بلکہ اس کی ساری زندگی ایسے ہی حملوں میں گزری ہے۔ پولیس نے پورے ہوٹل کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا مگر چیف اس طرح محتاط تھا جیسے یہ اس کا روز کا کھیل ہو۔ مگر اس کو یہ بات پتہ نہ تھی کہ آج تقدیر اس کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ آج پولیس پوری تیاری کے ساتھ آئی تھی۔
پولیس کے خفیہ ایجنٹوں نے ان کو یہ بتایا تھا کہ آج اس ہوٹل میں چیف کی کسی کے ساتھ ڈیل ہونے والی ہے جس کی بنا پر پولیس والوں نے ان کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔
پولیس اور چیف کے آدمیوں کے درمیان ایک درد ناک مقابلہ جاری ہوا۔ ہر طرف گولیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ سربراہ اور چیف کے آرمی گولیاں چلانے میں مصروف تھے پر پولیس کی ہوشیاری کی بدولت چیف اور سربراہ کے آرمی منٹوں میں زمین پر ڈھیر ہو گئے۔
اس وقت چیف کو زندگی میں پہلی بار ناکامی محسوس ہوئی۔ چیف بھاگنے والوں میں سے نہیں تھا مگر اس بار اسے بھاگنا ہی بہتر لگا مگر کیوں کہ پولیس نے اس کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا، اس وجہ سے اس کی یہ کوشش بھی ناکام رہ گئی۔ پولیس نے اسے ہتھکڑیاں پہنائیں اور اپنے ساتھ تھانے لے گئے۔
پورے شہر میں یہ خبر روشنی کی طرح پھیل گئی کیونکہ چیف کوئی معمولی بندہ نہیں تھا بلکہ ایک گروہ کا مالک تھا جو پورے شہر پر راج کرتا تھا۔ وہ صرف اس شہر پر ہی نہیں قابو رکھتا تھا بلکہ ملک سے باہر بھی اس کی بہت پہنچ تھی۔